۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف

حوزہ/ انڑ نیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی :اس سینٹر کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انڑ نیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی :اس سینٹر کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔ 

مدرسہ سلطانیہ، اودھ کی پہلی سرکاری درسگاہ:

,,اس اتفاق کو کیا کہئے کہ جس زمانے میں انگریز وں نے ہندوستان میں اپنی تعلیمی پالیسی کو قطعی شکل دی وہ اودھ میں نصیر الدین حیدر شاہ  ( ۳۷-۱۸۲۷ء)کی حکومت کا زمانہ تھا ۔ میکالے نے اس مسئلے پر اپنی تاریخی رپورٹ  ۲؍فروری۱۸۳۵ء میں پیش کی اور لارڈ ولیم بیٹنگ گورنر جنرل بہ اجلاس کو نسل نے  ۷؍مارچ  ۱۸۳۵ءکے رزولیوشن کے ذریعہ اسے شرف قبو لیت بخشا اور اس طرح تعلیم کے آزاد دھارے کو عیسائیت کی تبلیغ کی بالو اسطہ جد و جہد کی طرف موڑدیا  اگرچہ اس وقت تک اودھ بظاہر آزاد ی سے محروم نہ تھا لیکن پھر بھی حالات ایسے تھے جس میں انگریزوں کو اپنی تعلیمی پالیسی کی ابجد خوانی کا موقع مل گیا ۔ پہلا سبب تو یہ تھا کہ مرحوم نصیر الدین حید ر شاہ کے عہد میں اودھ پر قبضہ کر لینے کا سوال زیر غور تھا ۔ آئینہ تاریخ نما کا کہنا ہے:’’تیس برس بعد لارڈ بیٹنگ کو بخوبی معلوم ہوگیا کہ بغیر مداخلت کام نہ چلے گا کورٹ آف ڈائرکٹر س سے اجازت حاصل کر کے نصیر الدین حیدرکو دھمکایا کہ اب اختیار چھین کر پینشن مقرر ہو جائے گی،،۔(ص۱۰۸)
بر طانوی تعلیمی پالیسی کے پس پر دہ ارادے اور منصو بے کیا تھے ؟ اس کی جھلک "پی- سی جوشی"  کے لفظو ں میں ملاحظہ فرما ئیے: ’’انگریزی تعلیم کے اجرا ءکا سبب بھی ہندو ستان میں یو رپی سائنس کو رائج کر نے یا روشن خیال طبقہ پیدا کرنے کی نیک خواہش نہ تھی بلکہ اس کے ذریعہ انگریزی تعلیم کے حامیوں میں نئے تعلیم یا فتہ ہندو ستانیوں کو عیسائی بنا نا تھا مثال کے طور پر  ۱۲/اکتوبر۱۸۳۶ء کو میکا لے نے اپنی ماں کے نا م ایک خط میں لکھا ۔،،  میرا پختہ یقین ہے کہ اگر ہماری تعلیم کے منصو بے پر عمل کیا جائے تو بنگا ل میں تیس سال بعد ایک بھی بت پر ست باقی نہیں رہے گا! ،،۔(انقلاب ۱۸۵۷ءص۱۶۵)
آئیے اب ہم مفتی صاحب کی سوانح اور مرز اعزیز ؔمرحوم کی تحریر میں مدرسہ کے تاریخی حالات کی جستجو کریں ۔مفتی عباس صاحب اپنی کتاب تجلیات حصہ اوّل میں مدرسہ شاہی کے عنوان سے رقم طراز ہیں: ’’امجدعلی شا ہ کے جلوس کے شروع سال میں سید العلماء نے باد شاہ موصوف کو مدرسۂ دینیہ کی طر ف توجہ دلائی اور شروع ماہ صفر سے مدرسہ کے افتتاح کی بھی شہرت ہونے لگی ۔ اس زمانے میں مفتی صاحب نے ایک مختصر رسالہ "ترغیب بِنائے مدرسہ"  میں تحریر کیا اور ممتا ز العلماء سید محمد تقی صاحب کے ذریعہ بادشاہ تک پہنچایا، انہوں نے فورا ً توجہ فرمائی اور وزیر الممالک نواب امدد حسین خاں صاحب ذو الفقار جنگ اس کے انتظام کے لئے مامور ہوئے، اجرائے مدرسہ کا حکم نافذ ہوتے ہی اس کا انتظام ہوگیا ۔
 عزیز ؔمرحوم فر ماتے ہیں:’’ نواب سعادت علی خان کے مقبرہ میں اس مدرسہ کا آغاز ہوا اور سیدالعلما ءکی تجویز سے مدرسین کا اتخاب ہوا، شہر کے منتخب فضلاء عہدہ مدرسی سے سرفراز کئے گئے، مفتی صاحب کے متعلق بھی عہد ہ مدرسی ہوا ۔ مدرسئہ شاہی میں ایک مکان اور دس حجرہ مفتی صاحب کے زیر اہتمام تھے ۔
جناب سید مولوی ابو الحسن عرف جناب ابّو صاحب قبلہ طاب ثراہ کی سرگرمیا ں اور ان کی حمایت میں جناب ِمرحوم کے خسرمحترم مولوی سید تقی صاحب ممتازالعلماءطاب ثراہ کی مساعی نظر آتی ہیں۔چنانچہ جنابِ مرحوم کی حمایت اور جناب مولوی سید غلام حسنین صاحب علامہ کنتوری اعلی اللہ مقامہ کے تعاون سے   ۱۲۸۹ھ میں جسے ۱۸۷۳ء کے مطابق سمجھنا چاہیے یعنی امام باڑہ آصف الدولہ کی واگزاری کے گیارہ سال پہلے مدرسہ ایمانیہ قائم ہوا ۔ اس کے بعد لکھنو ٔ میں مذہب حقہ امامیہ کی دو اور دینی درسگاہیں قائم ہوئیں۔ایک مدرسہ مشار ع الشرائع جواب اپنے بانی مرزا بہادر مرزا محمد عباس مرحوم کے والد مرحوم ناظم صاحب کے نام کی مناسبت سے "ناظمیہ عربی کا لج" کے نام سے معروف ہے ۔ اسی دور میں امیر الدولہ راجہ امیر حسن خاں مرحوم والی محمود آباد نے بھی ایک دینی درسگاہ کی بنیاد ڈالی جس کے مدرس اعلیٰ اپنے دور کے یگانہ روزگارمعقولی اور مجتہد مولوی سید ظہور الحسن صاحب متوفی  ۱۳۵۷ھ تھے ۔ یہ درسگاہ بعد میں انگریزی اسکول میں تبدیل ہوگئی اور اب بھی "امیر الدولہ اسلامیہ کالج" کے نام سے قائم ہے ۔ 
لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مدرسہ سلطانیہ کی بحالی کے لئے فضا ہموار ہوتی گئی ۔ جب وقف حسین آباد کے سکریٹری کے منصب پر نواب راحت علی خاں مرادا ٓبادی کا تقرر ہوا تو جناب ابّو صاحب قبلہ اعلیٰ اللہ مقامہ کی مساعی برگ و بارلائیں اور ۳۴ برس کے اندوہناک تعطّل کے بعد جناب مرحوم کی زعامت میں یکم؍ جولائی ۱۸۹۲ء کو مدرسہ کا احیا ءہوا ۔ جب مرزا مہدی حسین خاں حسین آباد کے متولی ہوئے (جو انگریز وں کے معتمداور نہایت حکام رس ہونے کے باعث خاص اثر و رسوخ کے مالک تھے) تو مدرسہ کی ترقی کو پر پروازمل گئے اور  ۱۹۲۲ء میں اپنی شاندار عمارت میں منتقل ہوگیا ۔(غالباً کتابت ک غلطی سے ۱۹۲۲ء چھپ گیا ہے،صاحب مطلع انوار نے بھی لکھا ہے کہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۱۲ءکو مدرسہ موجودہ عمارت میں منتقل ہوا،ص ۳۴۔ابن حسن املوی)
دورِ شاہی کی اس یاد گار درسگاہ سے انگریزوں کو کس قدر وحشت رہی ہوگی کہ۱۹۰۵ء  میں آغا ابّو صاحب مرحوم کو حکام کے سامنے یہ خیر خواہانہ نظر یہ پیش کر نا پڑا کہ:’’  مذہبی تعلیم انسان کو اکا براو رفرماں روایانِ وقت کا مطیع و خیر خواہ رکھتی ہے اوربغاوت و فسادات کے خیالات صرف جہلاءکی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،،۔
زندگی نے جناب ابّو صاحب قبلہ کو اس مدرسہ کی خدمت کا موقع تین  سال ہی دیا۱۸۹۵ءمیں آپ نے رحلت فر مائی۔ اس کے بعد آپ کے نامور صاحبزا دگان جناب سید محمدباقر صاحب باقر العلوم متوفی ۱۳۴۶ ھ اور جناب سید ہادی صاحب متوفی ۱۳۵۷ ھ اعلیٰ اللہ مقامہمانے اس حدیقہ علوم اہلِ بیتؑ کی آبیاری کی اور یہ سلسلہ ان کی اولاد امجاد میں باقی رہا جناب استادی المحترم مولانا سید علی صاحب جامعہ سلطانیہ کے شیخ الجامعہ اور جناب مولانا سید محمد صالح صاحب مدرسہ سلطان المدارس کے مدرس اعلیٰ کے عنوان سے پہچانے گئے۔مدرسہ کے تحفظ اورد فاع کی فکر وں کے درمیان اس کی ترقی کے لئے سرگرم عمل رہے ۔ اس ادارے کے پر نسپل کے طورپر جناب نجم العلما ء نے ایک مختصر مدت تک نگرانی کی ۔ تاسیس مدارس کے ذوق و جہاد کے باعث جناب ا بّو صاحب قبلہ کا شماران تمام مدارس کے بانی کی حیثیت سے ہونے لگا تھا اور یہ شہر ت عامہ اکا برو اجلہ علماء تک تھی ۔
شیخ محمد حسن المظفر تاریخ الشیعہ میں فرماتے ہیں: جامعہ سلطانیہ اپنی شان کے اعتبار سے ہندوستان کی واحد درسگاہ ہے ۔ دیارِ ہند میں جو بھی ایسا واعظ عالم یا مبلغ ہے جسے علوم دینیہ میں کچھ بھی بہرہ ہے اسی جامعہ کی طرف نسبت رکھتاہے۔ مدرسہ سلطانیہ تو قائم ہی ہوا مگر یہ شاہزداگان والا تبار سے  خاص تھا اس لئے مدرسہ قیصر یہ کے نام سے ایک اور مدرسہ بھی قائم ہوا جو مدرسہ سلطانیہ کے شعبہ کے عنوان سے پہچانا گیا اور اس میں عوام الناس کے بچوں کے لئے دینی تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔ 
اصلی منبع: "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس  و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، ج1،تالیف: مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی؛ ناشر: انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس،دہلی( ہند)"۔

کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف

جاری ہے۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Syed Zargham Haider Rizvi IN 08:32 - 2021/06/21
    0 0
    Masha Allah, Jazakumullaho Khairal Jazaa. Khuda aapki Taufiqaat e Kher me izafa farmaye, bohut umda kaam hai. is zamane me sultaniya ka introduction bohut zaruri tha, iske zariey logon ko sultaniya ki tarikh maloom hui. Hawza News Agency ne bohut achcha kaam kiya hai. Jazakumullah